ہے مقدّر میں مرے حرفِ ادب، حرفِ دعا- تحدیث نعمت (2015)

ہَے مقدّر میں مرے حرفِ ادب حرفِ دعا
آپؐ کی چوکھٹ سے ملتا ہَے مجھے رزقِ ثنا

خوشبوؤں نے فاش کر ڈالا ہے یہ رازِ چمن
آپؐ کے نقشِ قدم سے پھول چُنتی ہَے صبا

مَیں یقینا مطمئن ہوں اس لئے میرے رفیق
طے نہیں ہو گا کبھی عشقِ نبیؐ کا مرحلہ

درد کی تصویر ہوں اوراقِ ہستی پر، حضورؐ
سر سے لے کر پاؤں تک ہوں ایک حرفِ التجا

مجھ کو سرمایہ غلامی کا ملے ربِّ قدیر!
دولتِ کونین ہَے عشقِ محمدؐ مصطفیٰ

حَشر میں دامانِ رحمت میں چھپا لیں گے حضورؐ
آج بھی عفو و کرم کی خوب برسے گی گھٹا

ملّتِ بیضا نہیں رکھتی یدِ بیضا، حضورؐ
ظلمتِ شب کی کئی صدیوں سے ہَے یہ ہمنوا

سانس بھی مشکل سے لیتے ہیں مکانوں کے مکیں
میری بستی میں چلے شہرِ پیمبرؐ کی ہوا

کہکشاں لیتی ہَے طیبہ کی ہواؤں سے چراغ
یہ ہجومِ مہرومہ نقشِ قدم کی ہَے عطا

آپؐ کے قدموں کا دھوون ہر کسی کو ہو نصیب
آپؐ کے قدموں کے صدقے میں تُو کر سب کا بھلا

سر پھری تہذیب کو درسِ اخوّت دیں، حضورؐ
عِلم کے ایوان میں ہَے صرف چرچا آپؐ کا

آپؐ کی نسبت سے بس پہچان ہے اِس کی، حضورؐ
ورنہ اک گمنام عاجز ہَے ریاضِؔ بے نوا