ریاض کی ’’نظم نعت‘‘ کی یکتائیت

(1)

ریاض حسین چودھری کو قدرت نے رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدحت نگار کا منصب عطا کیا اور ایسی صلاحیتوں سے نوازا جن سے وہ اردو نعتیہ ادب کو اپنی بے مثال تخلیقات سے مال دار کر گئے۔ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’زرِ معتبر‘ 1995میں چھپا اور اس پر اساتذۂ فن نے اپنی اس رائے کا برملا اظہار کیا کہ اُن کا ’’اسلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے‘‘ اور ان کے پہلے ہی مجموعے کو اردو نعت کی روایت میں ’’ناقابلِ فراموش عہد آفریں اضافہ‘‘ قرار دیا۔ جناب حفیظ تائب اس کے پیش لفظ ’’پیشوائی ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ریاض حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئینِ رسالت کے ساتھ ساتھ عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اٹھا ہے اور ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی۔ اِس کا سلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے اور اِسے جدت و شائستگی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں ’زرِ معتبر‘ اردو نعت کی روایت میں ایسا عہد آفریں اضافہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ ‘‘

ریاض کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ ایک چشم کشا تخلیقی ریاضت ہے جس سے نعت کے ادبی، فنی اور تخلیقی مقام کا تعین یوں ہوتا ہے جیسے درِ حبیب ﷺ پر کیفِ حضوری نصیب ہو جائے۔ پختہ اور زیبا غزل لکھنے والے ریاض جب نعت لکھنے لگے تو اوجِ فن کی اُن بلندیوں تک جا پہنچے جہاں انہیں غزل نعت کی بارگاہ میں کاسہ بکف دکھائی دینے لگی۔ یہ احساس انہیں اِس شدت سے ہوا کہ اپنے مجموعۂ نعت کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ رکھ دیا۔

اُن کے باطن میں تخلیقِ نعت کا جو چشمہ ابل رہا تھا، اردو ادب کی کون سی صنف و ہیئت اُس کے پھوٹنے کی شدت کی متحمل ہو سکتی تھی، اِس کا اندازہ خود تخلیق کار کو بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اُن کی اِس تخلیقی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مئی 2002 میں شائع ہونے والے پانچویں نعتیہ مجموعے ’’کشکولِ آرزو‘‘ کے تعارف میں شیخ عبد العزیز دباغ لکھتے ہیں:

’’حقائقِ حیات کے تنوّع، حوادثاتِ زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلّاق کی حسّاسیت کے فروغ نے گریباں چاک کرنے کے بجائے نمودِ فن کے تتبّع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہمکنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا، حسنِ شعر کی جملہ رعنائیوں کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیا اور اس طرح حُسنِ شعر کے نئے معیار وجود میں آ گئے۔ ‘‘

دراصل ریاض کے اندر نعت کے تخلیقی سوتے اُن کے بس میں نہ تھے۔ وہ نعت جبلّتاً لکھتے۔ اِسے وہ اپنے کلام میں کئی مقامات پر اپنے لئے ازلی حکمنامہ قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں قدرت نے حسنِ ادب اور حسنِ تخلیق کی لطافتوں کا وہ شعور عطا کیا ہوا تھا جس کے تحت لکھتے ہوئے اُن کے لئے ہیئت کا انتخاب ایک لاشعوری تجربہ تھا۔ یوں انہوں نے صنفِ نظم میںبھرپورنعت لکھی اور نظم کی ہر ہیئت میں لکھی۔ نظمِ نعت اُن کا اٹھارواں مجموعہ ہے جو ایسی ہی لازوال تخلیقی کاوشوں پر مشتمل ہے۔

یہاں اسلوبِ نظم کے حوالے سے جناب حافظ محمد افضل فقیر کے وجدان افزا مضمون’’ نعت کا مثالی اسلوبِ نظم ‘‘ کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ مضمون صبیح رحمانی کی مرتّبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت ‘‘ میں چھپا ہے۔ اُن کی فکر انگیز اور بصیرت افروز تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:

’’دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت اور نعت گو کے باہمی ربط کا تجزیہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اس کے پیکرِ نعت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک صاحبِ ذوق عارف کسی صنفِ سخن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرے، متصوّفانہ نظریات سے اس کا کلام لبریز نظر آئے گا۔ پھر صنفِ نعت تو باطنی ارادت کی عظیم ترین ترجمان ہے۔ ایک مرتبہ مولانا غلام قادر گرامی نے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ کی زمین میں شعر لکھنے کے لئے اُن کا وجدان اور تقویٰ کہاں سے لاؤں؟معلوم ہوا کہ عظمتِ تقویٰ اور بلندیٔ کردار شہپارہ نظم پر اس طرح متجلّی ہوتے ہیںکہ پھر اس کی تقلید بھی از قبیل محالات ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر دیگر نعت گو حضرات بھی ہیں، ان کی کاوش بھی قابلِ ہزار تحسین ہے کہ اُن کے سینوں میں اقرارِ توحید و رسالت موجود ہے، جو معارفِ نعت کا مخزن ہے۔ پھر اس کے ساتھ احساس گنہ گاری بھی ہے جو توبہ و انابت کی اصل ہے اور احساسِ ندامت ایک ایسا لامعہ نیاز ہے جس کی سرحدیں الطافِ ذاتِ لم یزل کو مماس ہیں۔ ویسے بھی ہر کلمہ گو پر واجب ہے کہ اپنے ولیٔ نعت کا سپاس گزار رہے۔ ہر وہ امتی جس کی زبان یا قلم سے کوئی مدحیہ کلام بہ صورتِ نظم و نثر صادر ہو ایک سپاس گزار ناعت ہے۔ ‘‘

ریاض کے ہاں نعت کی تخلیقی شخصیت تخلیقِ غزل سے بلند تر ہے۔ یہاں مجھے ریاض کے نعتیہ مجموعے ’’کشکول آرزو‘‘ کا پیش لفظ ’’نعت میں تغزّل اور شعریّت کی ایک وہبی صورت‘‘ تخلیقی تجربے کی نوعیت کے حوالے سے اہم نظر آتی ہے اور جناب حافظ افضل فقیر نے بھی اسی کا تجزیہ کیا ہے۔ اُن کے نزدیک وہبی صورت اُس وقت تشکیل پاتی ہے جب شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اُس کی تخئیلِ شعری کو لغوی وجود عطا کریں۔ تب تقویٰ اور اخلاص کی تجلی ان کی تراکیب و استعارات کو اظہار کے جگنو ؤں میں اتار دیتی ہے۔ اسے وہ معارفِ نعت کا مخزن قرار دیتے ہیں۔ مگر حافظ صاحب ایک قدم آگے گئے ہیں اور وہ نظم اور نثر کی بات کر رہے ہیں۔ اب جب کہ نثری نظم کوبھی صنفِ نظم کی جدید ترین ہیئت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے جس کی تازہ ترین مثال آصف ہمایوں کی ’’گیلی لکڑیاں جلانے کے دن‘‘ کی نثری نظم ہے۔ حالی کا یہ قول ’’نفسِ شعر وزن کا محتاج نہیں‘‘ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی بامعنیٰ ہے۔ نثری نظم کے شاعر اور ناقد عارف عبد المتین نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:

’’نثری نظم موجودہ اصنافِ سخن کا منطقی نتیجہ ہے۔ اگر ہم تاریخی تناظر میں اصنافِ سخن کا جائزہ لیں تو ہم پہ کھلے گا کہ ہم سالہا سال بتدریج نثری نظم تک پہنچے ہیں۔ اور درمیانی مراحل میں نظم پابند، نظم معرا، اور نظم آزاد ظہور پذیر ہوئی ہیں اور اب نثری نظم آئی ہے۔ اس تدریج کو ہم حریتِ فکر کے ’’تدریجی فروغ‘‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ــ‘‘

حافظ افضل فقیر بھی یہی بات کر رہے ہیں مگر ان کے ہاں اِس تخلیقی تجربے کا خمیر تقویٰ، عظمتِ سیرت اور انابت و نیازمندی کے نور سے اٹھتا ہے جسے تغزّل اور شعریّت کی ایک وہبی صورت بھی کہا گیا ہے اور جو اپنا پیرہن خود ڈیزائن کرتا ہے۔

ریاض حسین چودھری پریہ تجلیات آبشار بن کر اترتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ یہ آبشار مدینے کی ہواؤں کے اثر سے بکھر کر اظہارِ تمنا کی پھوار بن کر ان کی شعری لغت کے باطن کو منور کرتی ہیں۔ انوار کی اس پھوار کے نزول سے ریاض نے جہاں نعت کے حضور غزل کو کاسہ بکف پایا وہاں اسلوبِ نظم کی بو قلمونیوں کو بھی اپنی بساطِ نعت میں حالتِ وجد میں سمیٹا ہے۔ انہوں نے نعت کی باطنی نمود کو نظم کی ہر ہیئت کا پیرہن دیا ہے۔ پابند، معریٰ اور آزاد نظم سے آگے انہوں نے وجد انگیز گیت اور ماہیے بھی تخلیق کئے ہیں۔ اس مجموعے ’’نظمِ نعت ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی مقامات پر جہاں وہ گیت لکھنے لگتے ہیں وہاں حفیظ جالندھری پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے ساتھ براجمان نظر آتے ہیں۔ ریاض کا یہ تجربہ ہر لحاظ سے ایک بھرپور تجربہ ہے۔ آئیے ’’بھرپور‘‘ کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ریاضؔ کے 1995ء میں چھپنے والے پہلے نعتیہ مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ کا سرورق تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے مَیں نے محسوس کی ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو اُن کا جی نہیں چاہتا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ انتہائی محبت اور انتہائی عقیدت کی غماّز ہے اور اس حقیقت پر شاید ہی کسی کو شبہ ہوکہ ریاض چودھری اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے۔ ’’بھرپور‘‘ کا لفظ مَیں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اس نعت گار کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔ ’’زرِ معتبر‘‘ کا مطالعہ نعتیہ شاعری کی دل آویزیوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں شاعر کی ابتدائی کاوشوں سے لے کر اس زمانے کی نعتیں شامل ہیں جب اس کا فن عروج کی اس بلندی کی طرف رواں تھا جو اس نے کمال استقامت سے آخر پا لی۔ ‘‘

یہ ریاض کا اٹھارواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ میں نے ان کی نعت کے ایک ایک لفظ کے باطن میں جھانک کر دیکھا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وسائل اظہار اور تخلیقِ نور کے معاملے میں عملاً وہ ایسی کاوش لے کر آتے ہیں کہ تخیل، معانی، تشبیہات، استعارے اور علامتی نظم و جامعیت کے حوالے سے اگر کوئی اور مشقِ سخن کرنے بیٹھے تو اس سے بن نہ پائے۔ ایسے تخلیقی معیار کو ’’بھرپور‘‘ کا لفظ ہی واضح کر سکتا ہے۔ کسی جگہ کسی چیز کی کمی نہیں، اُن کے فنی ارتقا کا سفر ’’بھرپور‘‘ ہے۔ ان کے اظہار کی ندی ہر لحظہ ہر مقام پر ’’بھرپور‘‘ بہتی چلی جاتی ہے۔ طلوع فجر پانچ سو بندوں پر مشتمل ایک بھرپور نظم نعت ہے، دبستان نو ایک طویل نظم معریٰ ہے اور یہ اٹھارواں مجموعہ ان کی نعت کے باطن کا وہ فنی اظہار ہے جو وارفتگی، سپردگی، شگفتگی، بہاؤ اور دھنک رنگوں کی مہکار سے جھلمل کرتا چلا جاتا ہے اور اُن کی ’’نظمِ نعت‘‘ کو مقامِ یکتائی عطا کر دیتا ہے۔

(2)

اردو ادب میں نظم کے ارتقا اور فروغ کا تاریخی ادراک حاصل کرنے سے ہمیں ریاض کی ’’نظمِ نعت‘‘ کی ادبی، فنی اور تاریخی حیثیت کو سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ اگر اردوادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک حصّہ نثر اور دوسرا نظم ہے۔ اسی دوسرے حصّے میں وہ تمام شاعری آ جائے گی جو اردو ادب میں کی گئی ہے لیکن جدید نظم نہ تومثنوی ہے نہ قصیدہ نہ مرثیہ اور نہ غزل بلکہ محمد حسین آزاد کی کوششوں اور حالی کی تخلیقی جودت کا وہ نمونہ ہے جسے 1874ء سے با ضابطہ انجمنِ پنجاب کے تحت لکھا جانے لگا اور اس کا نام نظم ٹھہرا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ ’’ ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری‘‘ میں صفحہ 321پر لکھتے ہیں:

’’جدید اردو شاعری کی حد بندی آزاد اور حالی کے کلام سے ہوتی ہے۔ حالی نظم کے امام ہیں انھوں نے زبان و بیان کے نئے سانچے بنائے۔ ‘‘

انہوں نے یہ جملہ ان شواہد کی روشنی میں لکھا ہے جس کی تابناکی میں آج تک حالی کی نظمیں ایک خاص نوع سے مرجعِ خلائق ہیں۔ اردو کی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس صنف کو باقاعدہ اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آدمی نامہ، بنجارہ نامہ اور روٹی کی فلاسفی وغیر ہ نظیرکی وہ نظمیں ہیں جن میں ان کا انفرادی تجربہ اور نیا طرزِاحساس ملتا ہے جب کہ یہ تجربہ شاعری کی روایتی زبان سے ہٹ کر کیا گیا ہے۔

غزل ہمیشہ اجتماعیت کی مظہر رہی ہے۔ اس میں تشبیہات و استعارات کا استعمال اجتماعیت کو قائم کرنے کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم نظم انفرادی اقدار کی مظہرہے۔ اس کی گیرائی شخصی جذبے سے مملو ہوتی ہے جس کے لیے اس کے اندر ایک خاص شخص کے دل کی کیفیات کا تلاطم موجزن ہوتا ہے۔ یہ تاثرات کو مشتہر کرنے کا وسیلہ بھی ثابت ہوتا ہے اور عنوان کے پیش نظر ایک خاص قسم کے ربط کا متقاضی بھی۔

اردو نظم کو اوائل ہی میںحالی مل گئے جنھوں نے مدو جزرِ اسلام لکھ کر قوم کو انگریزی تہذیب کی سمجھ بوجھ دینے کی کوشش کی اور انھیں علم کے حصول کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ پھر وہ 1857ء کے قتلِ عام کے بعد کی فضا کو ہموار کرنے کے لئے بھی کوشاں رہے۔ اس طرح انہوں نے اس صنف کو وسعت داماں عطا کی۔ حالی کے بعد اسمٰعیل میرٹھی نے بھی اس صنف کو اپنایا اور سرسید اور حالی سے گہرے اثرات قبول کیے۔ ڈاکٹر سیّد محمد یحییٰ سبا نے ’’اردو نظم کے خد و خال‘‘ میں اس سلسلے میں لکھا ہے کہ چونکہ ان کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اس لیے انھوں نے بچوں کے لیے سبق آموز اخلاقی نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں منظر نگاری خاص طور پر ہندوستان کی منظر نگاری کمال کی چیز ہے جس کا قائل ہونا پڑتا ہے اوریہ امور ایسے ہیں جو صرف صنف نظم ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ یہ موضوع ذوقِ علم اور حکمت و دانش کے فروغ میں نظم کی اہمیت کا سبب بنا۔

1874ء میں انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ اس انجمن کے شعرا کے سامنے مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی منتشر شخصیتوں کو اصلاحی بنیادوں پر مجتمع کیا جائے۔ ان میں حالی، اسماعیل میرٹھی، شبلی اور آزاد وغیرہ شامل تھے۔ اسی دور میں سرسید کی تحریک بھی سرگرمِ عمل تھی۔ یہ دونوں اصلاحی تحریکیں تھیں۔ البتہ سرسید کی تحریک علمی، معاشرتی اور مذہبی اصلاح کی طرف توجہ دے رہے تھی جبکہ انجمنِ پنجاب کے شعرا فطرت کے حسین مناظر اور حقیقی زندگی کا رجائیت سے بھرپور احساس لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان مضامین کا فکری، ادبی اورفنی اظہار بھی نظم کی مختلف ہیئتوں کا متقاضی تھا۔

اس طرح جدید نظم کا ارتقا جاری رہا۔ اقبال، چکبست، اکبر، اسمعیل میرٹھی، سرور جہاں آبادی، شبلی، شوق قدوائی اور بے نظیر شاہ نے اس ضمن میں گراں بہار خدمات سرانجام دیں اور اس کے ہئیتی اور فنی ارتقا کو بام عروج پر پہنچایا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اسے ترقی پسند تحریک نے مہمیز لگائی اور فیض احمد فیض، ایم ڈی تاثیر، علی سردار جعفری، جانثار اختر، احمد ندیم قاسمی اور مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی نے اسے نئی جہتیں عطا کیں۔ ترقی پسند شعرا زندگی اور معاشرے کے داخلی اور خارجی اتار چڑھاؤ سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے انقلاب اور سماجی مساوات کے میکانکی نقطۂ نظر کو اپنایا لیکن اس کے باوجود ایسی نظمیں لکھیں جو تخلیقی جوہر اور شعریت سے معمور ہیں۔ فیض احمد فیض اس کی روشن مثال ہیں۔ وسعت فکرونظر نے شعر کی جولانگاہ کو نئی وسعتوں سے آشنا کیا اور حرف و صوت کے دامن میں بھی ایسی بہارآئی جس سے جذبہ و احساس کی تہیں پھولوں کا بانکپن بن کر چٹکنے اور دامن شعر کو مہکانے لگیں۔ یوںانقلابِ ہیئت اور نقطہ نظر کی مرکزیت سے جدید اردو نظم کی قوس و قزح نمودار ہوئی۔

اردو نظم کو ترقی پسند تحریک نے بڑے والہانہ انداز میں قبول کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر ترقی پسند شاعر نظم جدید کہنے لگا۔ نظم جدید میں عوامی لب و لہجہ کا رنگ زور پکڑنے لگا اور دیکھتے دیکھتے اس کا تعلق عام عوام سے راست ہو گیا۔ ترقی پسند تحریک کا اردو نظم پر یہ بڑا احسان تھا۔ ایک بات اور ابھر کر سامنے آئی کہ ادب کا تعلق سماج سے صرف اتنا نہیں کہ وہ اس سے صرف حظ اٹھائے بلکہ اس سے سماج کا کچھ فائدہ بھی ہونا چاہیے اور ان خیالات کو نظم کے پیکر میں ڈھالنے کے لیے جو شعرا کمر بستہ ہوئے ان میں فیض احمد فیض، مجاز، ساحر، کیفی اعظمی مخدوم محی الدین، عزیز قیسی، وحید اختر، علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی، نیاز حیدر، پرویز شاہدی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز تر کر دیا تھا۔ چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر آتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا۔ اس کا نام حلقۂ ارباب ذوق ہے۔ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بنا پر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جب کہ حلقے والوں نے انسان کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کیا۔ ایک کا عمل بلا واسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسرے کا بلا واسطہ داخلی اور وجدانی۔

حلقۂ اربابِ ذوق کے گروہ میں شامل بہت سے شعرا میں سے چند ایسے تھے جنھوں نے نظم کا جہانِ نو تعمیر کیا جن میں میراجی، قیوم نظر، اختر الایمان، اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی قابلِ ذکرنظم نگار ہیں۔ اقبال کے علاوہ عظمت اللہ خان، جوش ملیح آبادی، اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری نے نظم کی توسیع میں گرانقدر حصہ لیا۔ اقبال نے نظموں کے تاثر اور جمالیاتی کل کو ملحوظ رکھنے اور نئی تمثالوں اور صوتی آہنگ کی تخلیق میں ایسے معیار قائم کئے جو معاصر اور ما بعد شعرا کے لئے حاصل کرنا مشکل تھے۔ اسی زمانے میں جدید شاعری کا ایک نیا زاویۂ تخلیق جنم لے رہا تھا۔ یہ آزاد نظم اور علامت نگاری کی تحریک کی ابتدا تھی۔ اس سے یہ شعور بیدار ہوا کہ تخلیق کار کا کربِ تخلیق اب ایسے اظہار کا طالب ہے جس کا ادراکِ ندرت، ہمہ گیریت اور کُلّیت کا حامل ہو اور حرف و بیان کو یوں بنا جائے کہ اس بُنائی میں کائنات سمو دی جائے۔ اس تجربے کا اچھوتا پن نئے شعری ادراک کا متقاضی تھا جو شائد ابھی رحمِ مادر میں تھا۔

آزاد نظم کی صنف میں ردیف اور قافیہ کا اہتمام پابندی سے نہیں ہوتا۔ مگر یہ بحر سے کلیتہَ آزاد نہیں۔ اِس کی سب سے بڑی خصوصیت مواد اور اظہار کا آہنگ ہے۔ اس آہنگ کو برقرار رکھنے کے لئے بحرکے مروجہ ارکان کو گھٹا یا بڑھایا جاسکتا ہے۔ روائیتی شاعری میں مواد ہیئت کا تابع ہوتا ہے جب کہ آزاد نظم میں ہیئت مواد کے تابع ہوتی ہے۔ جیسے کلاسسزم میں فارم یا ہئیت کو اہمیت حاصل ہے جبکہ رومانٹسزم میں موادکو اولیت دی جاتی ہے۔

علامت کا کام تشبیہ یا اشارہ کی طرح اشیا کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ اشیا کے تصورات کا اظہار ہے۔ یہ گہرے داخلی شعور کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہے جس میں اجتماعی لا شعور کا بہت بڑا حصہ ہے۔ علامت شعور و ادراک کی تہوں کو باطنی رشتوں میں پرو کر ایسا جہانِ معانی تشکیل کرتی ہے جس سے وجدان کی تجلی جذبہ و خیال کی وسعتوں کو ایک نظم عطا کر کے پڑھنے والوں کے ذوقِ شعریت کی تسکین کا ساماں کرتی ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق نے اس میدان میں خاطر خواہ تخلیقی اور ارتقائی سفر طے کیا ہے۔

علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن نظم کی مدد سے انسان، خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں۔ انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا۔ طلوعِ اسلام، ذوق و شوق، ساقی نامہ وہ شاہکار نظمیں ہیں جن کی وسعتیں بیک وقت کئی جہانوں کو محیط ہیں۔ درد، اخلاص، فکری وسعت اور حیات نو کی تگ و 47 ء کے بعد جو نظم سامنے آتی ہے اس میں تین بڑے رجحانات ہیں۔ پہلا ترقی پسندی جس میں رومان اور انقلاب دونوں کا حوالہ موجود ہے۔ دوسرا حلقہ ارباب ذوق کا داخلیت پسند رجحان جس میں معاشرے کی داخلی سطح کو دیکھا گیا۔ جبکہ تیسرا رجحان جدید شعراء کا ہے جو مشینی اور صنعتی زندگی کاپیدا کر دہ ہے۔ ترقی پسند شعرا نے زیادہ تر پابند نظم کو اپنایا اور اُن کی نظر زیادہ تر معاشرے اور انسان کے خارجی مسائل ہی رہے لیکن ایک خاص نظریے کے زیر اثر ان کے ہاں ہمیں انتہا پسندی بھی نظرآتی ہے۔ اس کے برعکس حلقۂ ارباب ذوق والوں کاخیال تھا کہ اظہار میں انفرادی آزادی ہونی چاہیے اور شاعر کو کسی نظریے کا پابند نہیں رہنا چاہیے وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اُس کو بیان کر دے۔ اس کے علاوہ حلقے کے شعرا ء کا خیال تھا کہ ادب میں تازگی ہونی چاہیے اور ہمیں جدیدیت کو اپناناچاہیے لہٰذا روایت پر ان کا حملہ ترقی پسندوں سے زیادہ شدید تھا۔ اس طرح انہوں نے نظم میں آزاد نظم کو رواج دیا اورنئی لفظیات، نئی علامتوں اور استعاروں پر زور دیا۔

(3)

یہ ہے اردو نظم اور اس کا ارتقائی سفر جو ریاض حسین چودھری کو نعت کی تخلیق کے حوالے سے ورثے میں ملا۔ اردو نظم کا ایک بحرموّاج ان کے تحت الشعور اور لاشعور کی پہنائیوں میں ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے اور حرف و بیان کی ناؤ کو ساحل اظہار پر اتارتا چلا جاتا ہے۔ ان کی ’کلکِ مدحت‘ ان کی تخلیق کاری میں عالمِ کیف میں رہ کر بہارِ اظہار کی ترتیب و تزئین کرتی ہے۔ آزاد نظم، نظمِ معریٰ، گیت، ماہیہ، سانٹ، موڈ کے مطابق جو ہیئت موزوں ہو جائے ریاض مدحت نگاری کی ناؤ کو قلزمِ اظہار میں اتاردیتے ہیں جس کے بعدبہتے چلے جانے کا نشہ ان کے بادبانِ حرف و صوت کو اڑائے چلاجاتا ہے۔

اس مقام پر ریاض حسین چودھری کی نعت کے حوالے سے سے ادب کے کچھ صاحب مقام مؤرخوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر انور سدیدصاحب اپنے مضمون ’’اردومیں نعت نگاری...ایک جائزہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’نعت نے مرثیہ کی طرح ایک الگ فن کی حیثیت کبھی حاصل نہیں کی۔ مرثیہ کی خوش قسمتی تھی کہ اسے مونسؔ، خلیقؔ، انیسؔ اور دبیرؔ جیسے کاملانِ فن میسر آگئے جنہوں نے ساری عمر اسی ایک صنف میںسخن آرائی کی اور اس کے اتنے تاب دار پہلو پیدا کر دیے کہ فارسی مرثیہ بھی اس سے پیچھے رہ گیا۔ اردو نعت نگاروں کا حلقہ یقیناً بے حد وسیع ہے۔ اس میں ہر سطح اور ہر قبیل کے شعرا شامل ہیں لیکن اس ہمہ گیریت کے باوجود بدقسمتی سے اس صنف کو کوئی انیسؔ یا دبیرؔ میسر نہیں آ سکا۔ عبدالعزیز خالد کے سوا جس نے نعت کی کئی کتابیں بہ یک قافیہ لکھی ہیں، کسی بڑے شاعر کے وسیع ادبی ذخیرے سے نعتوں کی تعداد دو چار سے زیادہ نہیں۔ اسی لئے ہر شاعر کے ساتھ نعت کا ایک انفرادی رنگ تو سامنے آ جاتا ہے، لیکن نعت کے حوالے سے شاعر کا تخلیقی کل (creative totality) تشکیل نہیں پاتا۔ ‘‘

ڈاکٹر انور سدید کی کتاب’’ اردو کی مختصر تاریخ‘‘ 2014 میں شائع ہوئی اور ان کی وفات مارچ 2016ء میں ہوئی۔ اُن کی کتاب کے صفحہ 544-545 پر انتہائی اختصار کے ساتھ نعت کا ذکر بھی ملتا ہے مگر یہاں بھی انہوں نے مرثیہ پر زیادہ لکھا ہے جبکہ نعت کے حوالے سے درج بالا مندرجات پر مبنی موادہی شامل کیا ہے اور چیدہ چیدہ نعت گو شعرا کے نام گنوائے گئے ہیں۔

ریاض حسین چودھری کے نعتیہ کلام کا پہلا مجموعہ ’’زرِ معتبر‘‘ 1995میں شائع ہوا اور بارہواں مجموعہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ دسمبر 2015ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ ان بارہ مجموعہ ہائے نعت میں سے چھ کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا جو کہ قومی سطح کا قابلِ ستایش واقعہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب نے بہرحال اپنی کسی تحریر میں ریاض حسین چودھری کا نام مدحت نگاروں کی فہرست ہی میں شامل نہیں کیا، اُن کی خدمات کا اعتراف کرنا یا معیارِ تخلیق کو دادِ تحسین دینا تو دور کی بات ہے۔ جن ماہرین اور نقادانِ فن نے ریاض کی نعت نگاری پر بھرپور لکھا ہے ان میں ثقہ شخصیات شامل ہیں۔ جناب ریاض مجید صاحب نے ’’ریاض حسین چودھری کی معریٰ حمد و نعت‘‘ کے عنوان سے ’’دبستانِ نو‘‘ کا خوبصورت دیباچہ تحریر فرمایا ہے۔ پندرھویں نعتیہ مجموعے ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ کا جامع تعارف مرکزـ’حمد و نعت‘ کراچی سے جناب ڈاکٹر شہزاد احمد نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے چودھری صاحب مرحوم کے جملہ مطبوعہ مجموعہ ہائے نعت میں سے ایک ایک کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے۔ یہ تحریریں نعتیہ ادب کی تاریخ کا حصہ بنیں گی۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب کا ریاض کی نعت نگاری سے صرفِ نظر محض سہو ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کچھ باک نہیں کہ ان کے شعری اور ادبی مرتبہ و مقام کا تعین اور اُن کی لکھی ہوئی نعتِ سید المرسلین ﷺ کے تخلیقی کل کو اُن کی نعت خود متعارف کرالے گی۔ تاہم فروغ نعت میں سرگرم فعال روحیں اس سہو کا ازالہ کرنے کے حوالے سے مدحت نگاری میں پیشوائی کا مقام پانے والے صفِ اول کے اس شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقروض رہیں گی! مدحت نگاری کے حوالے سے اپنے منصب کے حوالے سے تو ریاض ملائکہ سے ہمکلام رہتے ہیں۔ اپنی ایک نعتیہ نظم میں جس کا عنوان ہے ’’فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھو گے‘‘ ریاضؔ یوں گویا ہیں:

فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھّو گے
اسے مدحت نگاری کا ملا ہے منصبِ رحمت

ثنا خوانی کا پرچم اسکے ہاتھوں میں ازل سے ہے
حضوری کی منوّر ساعتوں میں لپٹا رہتا ہے