اگلی صدی کی نعت

شیخ عبدالعزیز دباغ

ریاض حسین چودھری جہانِ نعت نگاری کا ایک بزرگ و برتر نام ہے جنہوں نے تسکینِ جاں کے لئے تخلیقِ نعت کے عمل میں اَن گنت تجربے کئے ہیں مگر ان کے ہر تجربے کی بعثت اُس وارفتگی سے ہوتی ہے جس میں ریاض کا وجود روزِ ازل سے گندھا ہوا ہے اور جو ریاض کے بس کی بات نہیں۔ نعت اُن کا ’حال‘ ہے جو اُن کے ازل سے ابد تک کے احوال پر محیط ہے۔ اپنے اس ’حال‘ میں بیتابیٔ جاں کے ہاتھوں وہ اس وقت تک لکھتے رہتے ہیں جب تک نعت ان کے نفسِ تخلیق میں اپنا پہلو نہیں بدلتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زود گو ہیں، دونعتیہ، سہ نعتیہ اور چہار نعتیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ’ تمنائے حضوری‘ اور’ طلوعِ فجر‘ جیسی طویل نعت لکھتے ہیں اور اگلے ہی لمحے ان کا جذبۂ نعت پھر سے بحرِ موّاج بن کر بے کراں ہونے لگتا ہے۔

اس ’حال‘ میں رہتے رہتے ان کے شعری عوامل سریرِ خامہ بن کر مقامِ قرطاس پر محوِ رقص ہو جاتے ہیں۔ الفاظ جیسے خود اپنی اپنی جگہ لینے لگیں۔ تشبیہات، استعارے، کنائے، علامتیں اور رعایتیں از خود اپنی شعری ساخت میں ڈھلنے لگیں۔ جیسے سحر پھوٹے، گلشنِ کلام میں صبائے تخیل کا خرام جادو جگانے لگے اور یوں ریاض کی نعت کی شعر ندی اُس وقت تک اپنی جولانیوں کے ساتھ بہتی رہے جب تک کہ ان کے نفسِ تخلیق میں ان کی نعت خود قلبِ ہیئت کا فیصلہ نہ کرلے۔ پھر اگلے ہی لمحے ترشّحات ِنعت کا یہ سیلان ریاض کے ساتھ کسی اور تجربۂ تخلیق میں محوِ ستایش ہو جائے۔ اس طرح جب نعت خود اپنا بدن ٹٹول کر ریاض کی بیاض بن جائے تو یہ پھر اُن پر منحصر ہے کہ وہ اِسے کیا نام دیں: زرِ معتبر، رزقِ ثنا، خلدِ سخن، آبروئے ما، زمزمِ عشق یا کچھ اور!

ریاض کی نعت بزبانِ اقبال ریاض سے کہتی رہتی ہے :

سیلم مرا بکوئے تنک مایۂ مپیچ
جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ

کہ میں تو ایک سیلاب ہوں، تنگنائے روایت میں سمٹا نہیں رہ سکتا۔ مجھے تو اپنے قدرتی بہاؤ کے ساتھ بہنے کے لئے وادیوں اور میدانوں کی پہنائیاں درکار ہیں اورمجھے ایسی ہی جولانگاہ کی ضرورت ہے جو میری طوفان سامانیوں کے لئے اپنی وسعتیں بچھا دے۔

پیرایہ غزل، قطعہ، رباعی، ثلاثی، فردیات، پابند نظم، آزاد نظم یا نظم معّریٰ، ریاض کی نعت کا ولولہ کسی طور حسرتِ اظہار کی کیفیت سے باہر نہیں آنے پاتا۔ نعت کو اپنی روح میں محسوس کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں :

نعت کیا ہے، عشق کے ساگر میں غرقابی کا نام
نعت کیا ہے، میرے ہر جذبے کی سیرابی کا نام
نعت کیا ہے ہجر میں سانسوں کی بے تابی کا نام
نعت کیا ہے، گنبدِ خضریٰ کی شادابی کا نام
نعت ہے بے آب صحراؤں میں پانی کی سبیل
نعت ہے اسمِ محمدؐ ہی کا اک عکسِ جمیل

پروفیسر محمد اکرم رضا نے ریاض کی تخلیقِ نعت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’شاعرِ خلدِ سخن کو رب کریم نے محبوب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ثنا گوئی کے لئے جہاںہر دور میں ڈھل کر جدت طرازی کا سلیقہ وافر عطا کیا ہے، وہاں یہ امر خاص طور پر قابلِ تحسین ہے کہ جدت ادا اور رفعتِ زبان و بیاں کا کوئی سا پیرایہ اختیار کرتے ہوئے بھی انہوں نے ان مخصوص نظریاتی اور روحانی تقاضوں کو فراموش نہیں کیا جن سے نعت عبارت ہوتی ہے۔ تشبیہات، استعارات، اور تراکیب میں جدت بیاں اپنی جگہ مگر ریاض حسین چودھری کے ہاں نعت کے حوالے سے وہی سوز و گداز، ادب و احتیاط، والہانہ پن، خود سپردگی، عجز و نیاز مندی اور نامِ رسول ؐ پر مر مٹنے کے جذبات پوری شان کے ساتھ ملتے ہیں جو اوائل سفرِ نعت ہی سے ان کی نعت کا امتیاز رہے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے انداز بے اختیار پڑھنے والوں کی آنکھوں کو عقیدت کا نم عطا کرتے ہیں۔‘‘

در اصل ریاض جو نعت لکھنا چاہتے ہیں وہ ابھی تک لکھ نہیں پا رہے۔ وہ لکھتے چلے جا رہے ہیں مگر ’’ تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے‘‘ کے مصداق ابھی تک انہیں نعت کا ذوقِ نظر نہیں ملا۔ اِسی کاوش میں وہ میسر اصنافِ شعر سے آگے نئے شعری تجربات کرتے چلے جا رہے ہیں کہ شائد انہیں ’’ذوقِ نظر‘‘ مل جائے۔ اور اب انہوں نے نعتِ معّریٰ کا انتخاب کیا ہے اور یہ کیفیت انہیں وقت کی حدود سے نکال کر آگے لے گئی ہے۔ وہ ہمارے زمانے میں رہتے ہیں مگر نعت آنے والے وقت میں بیٹھ کرلکھ رہے ہیں۔

ریاض کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ نعتِ معرّیٰ کا ایسا فن پارہ ہے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنائیاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔ لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ کا مفہوم بھی اضافی بوجھ گرانے اور کلام کو ردیف و قافیہ ار دیگر شعری پابندیوں سے آزاد رکھنے کا ہے۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی، رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔

ایک خستہ حال اور دل شکستہ امتی کیونکر بھی اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہِ بے کس پناہ میںاپنی وارداتِ غم، معاملات ِ ہجرو وصل، سنگینیٔ حیات کے دوہے اور غمِ امت کے آثارِ اظہار پیش نہیں کرے گا۔ وارداتِ نعت اور غمِ امت کا یہی وفورِ بیان ریاض کا ’’دبستانِ نو‘‘ بھی ہے جو اپنے دامن میں درد، کسک، خلش، کیفیتِ الم، خدشات و خطرات اور خوف و حزن امان الخائفین ؐ کے حضور التجائے رحم و کرم لئے ہوئے ہے۔ یہی نعت اس صدی کی آنے والی دہائیوں پر محیط ہے۔

ریاض حسین چودھری جہانِ نعت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں۔ ’’ دبستانِ نو‘‘ اُن کا تیرھواں نعتیہ مجموعہ ہے جبکہ کم و بیش مزید دس مجموعے طباعت و اشاعت کے منتظر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وہ اب تک کوئی بیس ہزار سے زیادہ مطبوعہ نعتیہ اشعار کہہ چکے ہیں جبکہ ان کی نعت گوئی کا سمندر ہے کہ بپھرا چلا جا رہاہے۔ ریاض کا قلم ایک سپہ سالار کی طرح حرف و معانی، تشبیہات، استعارات، علامات و محاکات کو میدانِ اظہار میں صف در صف اپنی اپنی جگہ پر تعینات کرتا چلا جاتا ہے جہاں وہ قدسیانِ درود مست کے ساتھ نغمۂ ستایش گنگنانے لگتے ہیں۔ اُن کے ہاں طرزِ اظہار اور انتخابِ پیرایہ و اصناف ایک لاشعوری عمل ہے جو خود بخود متشکل ہوتا ہے اور اُن کا وجدان ہی اس کی وسعت و رفعت کا تعین کرتا ہے۔ ریاض کی نعت وارداتِ توصیف و حیات، شدتِ غم رسول ؐ، غم امت، وفورِ شوق، اظہار کی طوفان سامانیاں، ندرت فکر و نظر، تازگی، شگفتگی، اور جدت و وھبییت سے مزّین وہ غلافِ جذبۂ و خیال ہے جو کعبۂ شوق پر آویزاں ہے کہ جس کا طواف ان کی زندگی کے آخری سانس تک بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

شیخ عبد العزیز دباغ