نعت میں تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت

شیخ عبد العزیز دباغ

وہ مالک الملک ہے۔ جسے چاہے سلطنت عطا کر دے اور جس سے چاہے پادشاہی چھین لے۔ ریاض وہ قابلِ رشک صاحبِ نصیب ہیں جنہیں مالک الملک نے اپنے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نگاری کی مملکت عطا کر رکھی ہے اور وہ اس کے مطلق العنان فرمانروا ہیں۔ یہ مملکت ان کے لئے ایسی جنت ہے جو ارض و سما کو محیط ہے کہ یہ جنت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عبارت ہے۔ کبھی تو یہ ارضی و سماوی جنت ’’زرِ معتبر‘‘ کہلاتی ہے اور کبھی اقلیم سخن میں ’’رزقِ ثنا بن کے سامنے آتی ہے۔ کبھی ’’تمنائے حضوری‘‘ کی شکل میں ہر صدی پر محیط ہو جاتی ہے اور کبھی قرطاسِ حیات پر ’’متاعِ قلم‘‘ بن کر مرتسم ہو جاتی ہے۔ مملکتِ نعت نگاری کا یہ انوکھا فرمانروا اب’’ کشکولِ آرزو‘‘ لے کر درِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرم مانگنے نکلا ہے:

اے تاجدارِ بزمِ رسالت کرم کرم
لوح و قلم کی عصمت و عفت کرم کرم

جناب ریاض حسین چودھری سے میرا تعلق پیمانۂ ماہ و سال سے ناپا جائے تو کمسن سہی مگر آگہی کے حوالے سے ہماری روز و شب کی سنگت حدِ زمانی سے ماوراء لگتی ہے۔ خلوص کے اِس پیکر سے پہلی بار ملا تو سوختہ جاں پایا۔ شخصیت اتنی شفاف کہ نگاہ آر پار ہو گئی۔ ان کے وجود میں ایک سیّال نور بہتا ہوا ملا جو اپنی تب و تاب کے ساتھ صاحبِ نطق بھی تھا اور صاحبِ قلم بھی۔ ایک بے سکون بحرِ مواّج جو ماہِ طیبہ کی کشش کے زیرِ اثر بیکراں ہو جائے اور چودھویں ہو تو کائنات کو اپنے اندرسمو لے۔ چودھویں کا یہ منظر احقر کو اکثر دیکھنے کو ملا۔

ریاض کو نعت نگاری ایک گلشن کی طرح تفویض ہوئی ہے۔ وہ خاکِ گلشن کے خواص سے آگاہ ہیں اور گلشن کی تزئین و زیبائش کا پختہ شعور رکھتے ہیں۔ اپنے ہر پودے کی آبیاری کرتے ہوئے گلشن میں بہار کو سدا قائم رکھنے کی فکر انہیں دامن گیر رہتی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے سارے پھول پودے سدا بہار ہیں پھر بھی وہ ایک زیرک باغباں کی طرح خزاں کا راستہ روکنے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ کون سا پودا کس کیاری میں اور کون سا پھول کس شاخ پر، کیسے اور کب؟ یہ انہیں سوچنا نہیں پڑتا کہ ان کا فارمیٹ کمپیوٹر کے کسی پروگرام کی طرح ہے، ہر پھول ہر پودا ہر کیاری ترتیب و زیبائش کے نقطۂ نظر سے خود بخود ایک پیرائے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ پھولوں کی یہ کیاریاں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ مہکا ہوا یہ گلشنِ نعت ہر سُو رنگ بکھیرتا چلا جاتا ہے اور رنگوں کا تنوّع گلدستوں اور گجروں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے اور ریاض ہر سال کی نئی فصل اگاتے چلے جاتے ہیں۔ یہی فصلیں اُن کا ’’رزقِ ثنا‘‘ ہیں اور یہی اُن کا ’’کشکولِ آرزو‘‘! بہت مصروف ہیں، انہیں اِس کاروبار سے فرصت نہیں۔

گجرے بنا بنا کے درود و سلام کے
قلب و نظر میں نعت کی محفل سجاؤں گا

اور ریاض کے ہاں یہ محفل ہر وقت سجی رہتی ہے۔

ریاض کے شا م و سحر یوں مہکتے دیکھے تو ان کے لئے دل میں محبت کا ایک بے پایاں سمندر جاگ اٹھا۔ ’مَیں خاکِ پائے مدح گویانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں‘۔ سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا گوئی، ندرتِ فن، جذب و مستی اور فراوانیء اظہار دیکھتے ہوئے دل ان کی طرف کھچنے لگا اور آخر جب اِس نادم کوآقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذنِ حاضری عطا کیا تو دل چاہا کہ ریاض کے گلشنِ نعت سے کوئی تازہ گلدستہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ساتھ لے جاؤں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرت فرمائیں گے اور غلام کا کام بن جائے گا۔ کیا خوب اتفاق ہوا کہ ریاض کا تازہ مجموعۂ نعت ’’متاعِ قلم‘‘ احقر کے عازمِ مدینہ ہونے سے چند روز قبل ہی چھپ کر آیا تھا جو میری خواہش پر انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے مجھے عطا کر دیا۔ ما بعد کیا ہوا؟ سپردِ قلم کیسے کروں!

’’متاعِ قلم‘‘ کی یہ نعت :

طیبہ سے آنے والے میرے قریب آنا
اس چشمِ تر میں خاکِ شہرِ نبی لگانا

میرا سلام لے کر پہنچی تھیں جب ہوائیں
اُس وقت کیا ہوا تھا، کچھ سامنے تو لانا

جب حرمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ نعت مطالعہ سے گذری تو ہوا کے وجود کا احساس زندہ ہو گیا، مجھے ہوا نظر آنے لگی۔ ایک کیفیت تھی جو حسرتِ اظہار پھاند نہیں سکتی۔ ریاض کے اشعار کھلبلی مچا گئے اور یہ جنبشِ قلم باقی رہ گئی:

اے شاعرِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !
جب تیری نعت سن کر، لے کر سلام تیرا
پہنچی ہوا مدینے!
منظر وہ دیدنی تھا
اشعار تیرے گاتی
نعتِ نبی سناتی
دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیتاب ہو رہی تھی
باب البقیع سے لے کر
باب السلام تک وہ
اشعار تیرے گاتی، مستی میں آتی جاتی
جالی کو چومتی تھی
پاؤں نہیں تھا اُس کا لگتا کہیں زمیں پر
آنسو ترے اٹھا کر
ہر آنکھ میں لگاتی
حرفِ دعا کو تیرے ہر ہونٹ پر سجاتی
ہر سُو حرم میں جیسے
اشعار تیرے گاتی
بے حال ہو رہی تھی
نعتیں تری سنا کر
کرتی طوافِ گنبد
مینارۂ نبی کے اوجِ فلک رسا پر
پہنچی پیام لے کر
تیرا سلام لے کر
اک غلبۂ جنوں میں، پرواز کر رہی تھی
یہ اوج پاتے پاتے
چاروں جہت فضا میں
لہرا کے اک پھریرا تیرے کلامِ غم کا
تعظیمِ نعت اپنے سینے میں جذب کر کے
شہرِ نبی کی
بیخود
عشاّق وسعتوں میں
تحلیل ہو رہی تھی
اے شاعرِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! منظر یہ دیدنی تھا
جب تیری نعت سن کر، تیرا سلام لے کر
پہنچی ہوا مدینے!

جنابِ ریاض کے’’ کشکولِ آرزو‘‘ کے عناصرِ ترکیبی اور عملِ کیمیائی ادراک میں آ بھی جائیں تو بھی ورائے ادراک سی داستان لگتی ہے۔ ان کا نفسِ ناطقہ، لطافتِ تخیل، تشکیلِ معانی، عملِ تخلیق اور طرزِ اظہار اُن کی ذات میں اس طرح آمیختہ ہیں کہ ان کی نعت کا تغزّل اور شعریّت ایک وہبی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ حمدِ باری تعالیٰ بیان کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں :

تاجدارِ ارضِ جاں کی نعت کا دے کر ہنر
منکشف خود کو پسِ وہم و گماں کس نے کیا

یوں ہے جیسے نعت کا ایک خیمہ سا تنا ہے، ریاض براہِ راست اس خیمے میں اترے ہیں، اِس خیمے سے باہر زندگی کو جھانک کر دیکھا ہے، اِس کی تلخی بھی پی ہے، اِس کا سوز بھی چاٹا ہے، اور آتشِ وقت کی حدّت کو اپنی روح میں جذب کیا ہے مگر اِسی خیمۂ نعت کے اندر۔ خواہشیں بھی ہیں حسرتیں بھی۔ سرمایۂ قناعت بھی ہے اور محرومی و کم مائیگی کا احساس بھی۔ غرض زندگی بھرپور اور مکمل، مگر ثنائے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیمۂ جانفزا کے نور بار حصار میں۔ اس سے باہر کچھ نہیں۔ وہ اور ان کی سوچیں تجلی ثنائے خواجہ میں ملفوف ہیں:

مَیں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبی ﷺکی نعت ہی سوچوں گا مَیں

انہیں کسی محرومی کا گلہ بھی کبھی دامن گیر نہیں ہوا :

کشکولِ آرزو کبھی خالی نہیں رہا
ہر زخمِ نارسائی مٹا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل

ریاض نے نعت کو مذہباً محسوس کیا ہے نہ اپنایا ہے بلکہ نعت ان کے ہاں اُن کی ذات کے سلسلۂ روز و شب پر محیط ایک تخلیقی تجربہ ہے جس کے لئے انہوں نے پیرایۂ غزل کو فطرتاً منتخب کیا ہے۔ اُن کا شعور خمیرِ نعت سے وجود میں آیا ہے اور ان کے شعور اور تحت الشعور کی معنوی تہیں ایسے علامتی نظامِ شعر کی متقاضی ہیں جو اپنے رنگ و نسل کے اعتبار سے جدید غزل کے جہانِ فن کا سرمایہ ہے۔ ان کا رنگ و آہنگ ذاتی اور انفرادی ہے اور اسی سے نعت نگاری میں ان کا مقام متمیز ہوتا ہے۔ جملہ معترضہ، کہ انسان کے اﷲ اور رسول سے متعلقہ تمام امور کو اگر روایتی، مذہبی توضیحات سے ہٹ کر زندگی کی بیّن حقیقتوں کی روشنی میں سمجھا اوراپنایا جائے تو ہم پھر سے ایک منفرد امت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ہماری زندگی میں شگفتگی اور تازگی آسکتی ہے، وہی شگفتگی اور تازگی جو ریاض حسین چودھری کے شعری تجربے سے نعت نگاری میں پیدا ہوئی ہے۔

ریاض کے ہاں دردِ امت کی کسک ایک زخمِ تازہ کی صورت نعت کے مضامین کا ایک معتبر حصہ ہے۔ وہ ’کشکول آرزو‘ لئے دربارِ مصطفیٰ ؐ سے کرم کی بھینگ مانگ رہے ہیں اور بھیک مانگتے ہوئے کسی کو نہیں بھولتے، نہ خود کو نہ بچوں کو نہ ملک و قوم کو نہ امت کو اور نہ نسلِ انسانی کو :

ایمان اور یقین کے بحرِ جمود میں
جولانی و تموجِ راحت کرم کرم

ہر سمت بت پرستی کی شکلیں نئی نئی
برہانِ عشق و تابشِ وحدت کرم کرم

انسان مبتلا ہے نفاق و فساد میں
اے صاحبِ کمالِ امامت کرم کرم

پرچم کھلے ہوئے ہیں لہو کے چہار سمت
وجہِ سکون، شافع امت کرم کرم

سالارِ نسلِ آدمِ خاکی، رہِ نجات
عرشِ بریں کی رونق و زینت کرم کرم

شاداب ساعتوں کا مرے گھر میں بھی نزول
تاریکیوں میں نورِ معیشت کرم کرم

زندگی کے سب مسائل اپنے اپنے طریقے سے ریاض کی نعت کے کینوس پر طلوع ہوتے چلے جاتے ہیں او روہ اپنی جان سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور عقیدت کے پھول اور درود و سلام کے گلدستے پیش کر کے التجائیں کرتے جاتے ہیں۔ مگر ان کا آنسوؤں سے تربہ تر کشکول اس وقت تک نہیں بھرتا جب تک انہیں اس میں نعتِ ختم المرسلین کے سکون کی کھنک سنائی نہ دے۔

یا خدا اب کے برس بھی کشورِ دل میں ریاضؔ
نعتِ ختم المرسلین شام و سحر لکھتا رہے
شہرِ طیبہ کے گلی کوچوں کی خاکِ پاک کو
لوحِ احساسات پر رشکِ قمر لکھتا رہے

اس سے غرض نہیں کہ مرا آشیاں رہے
یہ بھی نہیں، چمن میں مری داستان رہے
اتنی سے التجا ہے مگر ربِ ذوالجلال
اقلیمِ نعت میں میرا نام و نشان رہے

جناب ریاض جب ایک سچے مسلمان کی طرح قبر و حشر کا سوچتے ہیں تو بھی نعت ہی کے حوالے سے۔ لحد، میدانِ محشر، ریاض اور نعت ایک چوکور کی حیثیت سے ان کے نعتیہ کلام میں جا بجا ملتے ہی۔

حشر تک چین سے سو جاؤ! فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صلِّ علیٰ کا موسم

عجیب ایک تماشا سا ہے سرِ محشر
ریاض آپ ﷺکے قدموں کو چھوڑتا ہی نہیں

’کشکول آرزو‘ میں یہ مضامین سفرِ آخرت کے احساس میں ڈھل کر سامنے آئے ہیں۔

اشکِ پیہم کی میں برسات لگا لوں تو چلوں
اپنے دامن سے ہر اِک داغ مٹا لوں تو چلوں
عجز کے پھول ہواؤں میں بکھیروں پہلے
مغفرت کا سروسامان اٹھا لوں تو چلوں

مگر نعت نگاری کے حوالے سے ریاض اپنی روح میں جھانک کر آخر اپنے عشق و فن کا راز کھول ہی دیتے ہیں۔

روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا

ریاض اِس نور کی برکت سے خود بھی جاوداں ہیں اور اُن کی نعت بھی۔

اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ شعری کاوش زندگی کی تمام تر وسعتوں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسی صورتحال سے دو چار ہوجاتی ہے جس میں عملِ تخلیق یہ صدا دیتا ہے :

سَیلم مرا بہ کوئے تنک مایۂ میچ
جولانگہے بہ وادی و کوہ و کمر بہ دہ

شعر کی تنگئی داماں، حسرتِ اظہار اور تخلیقی تجربہ باہم الجھنے لگیں تو عاشق کا گریباں یاد آتا ہے :

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

حقائقِ حیات کے تنوّع، حوادثاتِ زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلّاق کی حساسیت کے فروغ نے گریباں چاک کرنے کی بجائے نمودِ فن کے تتبّع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہمکنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا، حُسنِ شعر کی جملہ رعنائیوں کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیا۔ اور اس طرح حُسنِ شعریت کے نئے معیار وجود میں آگئے۔

نعت نگاری میں ریاض کا تخلیقی عمل بھی اکثر ایسی صورتحال سے دوچار ہو جاتا ہے جب شعر کی تنگ دامانی اور اظہار کی حسرت کاتضاد انہیں آزاد نظم کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے اور نعت کی روایت سے یکسر ہٹ کر آزادیٔ اظہار کی یہ جرأتِ فن انہیں پیشوائی کی مسند پر فائز کر دیتی ہے۔ ’’کشکولِ آرزو‘‘ میں بھی سابقہ مجموعہ ہائے کلام کی طرح انہیں اس صورتحال سے سابقہ پڑا ہے۔ 1988 کی پہلی نعتیہ نظم، نارسائی کا موسم بے اماں، اور ’فرار‘ چند حسین فن پارے ہیں جو اپنے تمام تر علامتی نظم کے ساتھ فہم و ادراک کو دعوتِ ابلاغ دیتے ہیں :

حضورؐ دن کے اجالے میں
کیا نہیں ہوتا
حضورؐ دن کے اجالے میں
کیا نہیں دیکھا
برنہ آنکھ کو شب کا لباس پہنا کر
کسی کھنڈر میں بڑی خامشی سے سو جاؤں
مگرمیں اس کی اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگوں

پابند لکھتے تو شاید اس رعنائی اظہار اور اثر آفریں سادگی کے ساتھ ریاض وہ سب کچھ نہ کہہ پاتے جو اس شعری تجربے سے صبح نو بہار کی طرح ہویدا ہے۔ کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انہیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا امیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھر نے لگتی ہے!

جناب ریاض شعری تنوّع کے معاملے میں صاحبِ ثروت واقع ہوئے ہیں۔ پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ ان کی پابند اور طویل نظمیں شاہکار فن پاروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں ’یہ کون آیا کہ تاریخ بشر پھولوں سے مہکی ہے‘، ’یہ ریاض میرے حضور میں‘، ’دیے پھر جلانے کو جی چاہتا ہے‘، ’رزقِ بقا‘ اور’کلاؤڈ آف ڈارکنس‘ ’کشکولِ آرزو‘ کے وہ درخشاں و تاباں سکہ ہائے ثنا ہیں جن کی تب و تاب یقینا صاحبِ کشکول کا سرمایہ آخرت ہے! ریاض کی شعریت کا یہی وہ پہلو ہے جہاں سے ان کی شخصیت کی مقناطیسیت کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں اور سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر دیوانہ اس مقناطیس کی زد میں آکر مستِ مئے الست ہونے لگتا ہے۔

’کشکولِ آرزو‘ ریاض کی نعت نگاری کے گلشن کی پانچویں منزل ہے، پھول، رنگ، خوشبوئیں، گلدستے، گجر اور شادابیاں وہی ہیں جو آپ نے پہلی چار منزلوں میں دیکھیں مگر تنوّع، تازگی، ندرت، جدّت اور ہمہ گیری ریاض کے ہاں بذات خود محوِ سفر ہیں، یہ کہیں بھی ایک جیسے نہیں۔ گلاب، چنبیلی، یاسمین، گلِ لالہ اور دیگر گلہائے رنگ رنگ بالکل نئے، تازہ اور متنوّع، جیسے آپ انہیں پہلی بار دیکھیں۔ بلاشبہ تنوّع، تازگی اورشبابِ اظہار ہی اُن کا سرمایۂ کلام ہے!

جنابِ ریاض کے صاحبِ جنون مزاجِ نعت کی یہ تعارفی تحریر جہاں احقر کے لئے باعث سعادت ہے وہاں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے لئے ریاض کے وجود کے ہر ذرے سے پھوٹنے والے سیلِ شوق کا فیضان بھی ہے جو چشمِ قلم سے آنسو آنسو ٹپکا ہے، وہ آنسو جو میرے سجدۂ ندامت کی آبرو اور بارگاہِ شافعِ محشر کے لئے اس سوختہ ساماں کا کُل سرمایہ ہیں۔

مولای صل و سلم دائماً اَبداً
علٰی حبیبک خیر الخلق کلھم

شیخ عبد العزیز دباغ
9 مئی، 2002ء